सोमवार, 10 सितंबर 2012

مجاہدِ مِلّت مولانا حبیب الرحمٰن صاحب از مشتاق احمد نظامی

مجاہدِ مِلّت مولانا حبیب الرحمٰن صاحب از مشتاق احمد نظامی
لانبا قد۔گندمی رنگ۔بیضوی اور نورانی چہرہ۔گول اور چھدری داڈھی۔کشادہ اوربلند پیشانی پر سجدے کا چمکتا ہُوا نشان۔ سر پر دو پلہ ٹوپیْ ململ یا مارکین کا لانبا کرتا۔جس میں کئی کئی پیوند ۔سلیم شاہی جوتا یا گھسی پٹی چپّل۔نارنجی یا عنابی رنگ کی بغیر سلی لنگی۔برسوں کی سلی سلائی صدری،جس کی جیب میں کاغذات کا پلندہ،گرجتی ہوئی آواز اور ہاتھ میں آل ینڈیا ٹئم ٹیبل ،مختصر اور معمولی سا بستر ٹوٹی ہوئی کُنڈیہ میں لوٹا،مسواک،کلوخ،جائے نماز۔۔۔یہ ہیں مولانا حبیب الرحمٰن۔ نہ پوچھئے اس مردِ مُجاہد کی داستانِ زندگی۔صوبی اُڑیسہ ضلع بالیسر،قصبہ دھام نگر کے رئیسِ اعظم، نسباً عبُاسی،مسلکاً سنّی حنفی رضوی۔مشربا! قادری اشرفی۔۔ جس گھرانے میں آپ نے آنکھ کھولی اس کے ہر چہار طرف امارت و ریاست برس رہی تھی۔ماں باپ نے عیش و عشرت کے پالنے میں پرورش کی۔خاندانی اصول کے مطابق ختم قُرآن مجید کے بعد چچا نے کٹک کے ایک انگریزی اسکول میں داخلہ کردیا مگر ـہونہار بروا کے ہوت چکنے چکنے پات۔اپنی افتاد طبع سے مجبور تھے  اسلئے یہ کہکر گلو خلاصی  کی کہ انگریزی تعلیم میرے مجاز کے مطابق نہیں چنانچہ آپ کےچچا رحمت اللّٰہ علیہ نے آپ کی عربی تعلیم کے لئے  سیّدی مخدومی حضرت مولانا سید شاہ ظہور حسام صاحب مانک پوری مفتی مدرسہ سبحانیہ الہٰ باد کو مدعو کیا اور کچھ دنوں تک سلسلہ تعلیم مکان پر ہی  جاری رہا  اور اس کے بعد درس نظامیہ کی تکمیل کے لئے حضرت مولانا عبدالکافی صاحب رحمت اللّٰہ علیہ کی خدمت میں الٰہ آباد تشریف لائے۔ تقریباً درس نظامیہ کے کتب متوسطات کی یہیں تکمیل فرمائی۔منطق و فلسفہ و علم ہیئات سے کافی دلچسپی ہے۔اس فن میں جس کی شہرت سنی بحصیل علم کے شوق میں برابر سفر کرتے رہے۔چنانچہ اسی جزبہ کے ماتحت مرادآباد اور اجمیر مقدس کی بلند پایہ و معیاری درسگاہوں تک پہونچے صدر الرشریعہ حضرت علامہ مولانا امجد علی صاحب  رحمت اللّٰہ علیہ  اور صدرالافاضل حضرت مولانا محمد نعیم الدّین صاحب  رحمت اللّٰہ علیہ  جیسی عظیم شخصیتوں سے استفادہ فرمایا۔اور صدرین نے اپنی کریمانہ شفقتوں سے نوازا۔حجّتہ الاسلام حضرت مولاناحامد رضا خان صاحب  رحمت اللّٰہ علیہ نے سلسلہ عالیہ رضویہ کی سند خلافت عطا فرمائی ایسے ہی سلطان المشائخ حضرت اشرفی میاں صاحب کچھوچھوی رحمت اللّٰہ علیہ نے سلسلہ عالیہ اشرفیہ کی خلافت سے سرفراز فرمایا۔آپ کے رفقائے سبق میں سید العلماء حضرت مولانا سید غلام جیلانی صاحب شیخ الحدیث مدرسہ اسلامیہ اندر کوٹ، میرٹھ۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا سردار احمد شیخ الحدیث جامعہ رضویہ لائل پور اور استاذالعلماء  حضرت علامہ مولانا حافظ عبد لعزیز صاحب  رحمت اللّٰہ علیہ شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ مبارکپور،سلطان المناظرین حضرت مولانا مفتی رفاقت حسین صاحب شیخ الحدیث دارلعلوم شاہ عالم احمدآباد کا نام نامی خصوصیت سے قابل ذکر ہے۔
تعلیم سے فارغ ہو کر جو کسی وقت الہ آباد کی ممتاز ومیعاری درسگاہ تھی۔ مدرسہ سبحانیہ الہ آباد میں شیخ الحدیث کی جگہ پر فائز رہے اس وقت سینکڑوں طلبہ آپ کے دامن عافیت سے وابستہ رہے۔ مدّتوں مدرسہ سبحانیہ میں مدرس اول کی خدمت انجام دیں مگر کبھی کبھی مدرسہ سے ایک پیسہ بھی نہ لیا بلکہ وقتاً فوقتاً خود ہی مدرسہ کی مالی امداد فرمائی اور تقریباً چوبیس طلبہ کو اپنی طرف سے کھانا دیتے تھے۔نخاس کہنہ الہآباد کا محسن ہوٹل انھی طلبہ کے سہارے چلتا تھا۔بعض ایسے بھی طلبہ تھے جن کی مستولاً کفالت فرمانے کے باوجود ان کے والدین کو ماہانا خرچ بھی بھیجتے تھے۔
۔

गुरुवार, 19 अप्रैल 2012

   خاکِ پائے حبیب ہو جائوں ،
ان کے در کے قریب ہو جائوں،
 روز دیکھوں جمالِ روئے حبیب,
 اس قدر خوش نصیب ہو جائوں،